Top Rated Posts ....
Search

Chand Roz Mein Eham Faisle....PTI

Posted By: Abid on 01-02-2019 | 23:56:51Category: Political Videos, News


چند روز میں اہم فیصلے متوقع : تحریک انصاف کی غیرملکی فنڈنگ کے حوالے سے کیا تہلکہ مچنے والا ہے ، میں نے جہانگیر ترین کو آگاہ کر دیا ۔۔۔۔ صف اول کے صحافی نے بریکنگ نیوز دے دی
لاہور (ویب ڈیسک) عمران خان بین الاقوامی سطح پر مقبول ترین قومی راہنما کی حیثیت سے ابھرے‘ لیکن صرف چھ ماہ کی کارکردگی کے باعث تحریک انصاف کا بطور سیاسی جماعت مقبولیت کا گراف گر چکا ہے‘ ان کی ٹیم کی وجہ سے وزیر اعظم عمران خان کے تمام دعوے اور وعدے ہوا میں تحلیل ہوتے

نامور کالم نگار کنور دلشاد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ جا رہے ہیں اور بار بار دوسرے ممالک سے قرض لینے سے عوام کی سبکی ہو رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو ملک میں سادگی کی مہم چلانے کیلئے خود سادگی کا مظہر بننا چاہیے تھا‘ لیکن وزرا ان کے احکامات پر عمل درآمد نہیں کر رہے ہیں۔ دوسری جانب ماضی کے حکمرانوں پر بھی کوئی آہنی ہاتھ نہیں ڈال سکا‘ اور وہ جیل میں ہوتے ہوئے بھی اقتدار سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ ناقص ثبوتوں کی وجہ سے کسی سے ایک ڈالر بھی وصول نہیں کیا جا سکا۔ خاص طور پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود کرپٹ سابق حکمرانوں سے کچھ نہیں نکلوا سکے۔ ان کی رخصتی پر سابق حکمران خاندان اور ان کے اتحادیوں نے خوشی کا اظہار کیا مگر عوام میں مایوسی پھیل گئی۔ سابق چیف جسٹس نے اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک ہفتہ پہلے جو فیصلے کیے وہ شاید قوم کی توقع کے مطابق نہیں تھے۔ چھ ماہ کے مختصر عرصہ میں عوام نے محسوس کر لیا ہے کہ حکومت خود مسائل کو دعوت دے رہی ہے‘ اور خصوصی حکمت عملی کے تحت بلا وجہ اپوزیشن کو اشتعال دلا رہی ہے جس کے باعث تنائو کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔

اس پر دو آرا نہیں کہ سندھ سمیت ملک گیر سطح پر سیاسی استحکام، معاشی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے‘ اور سیاسی مخاصمت کا گراف گرانے کی اشد ضرورت ہے۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے‘ ایسا نہ ہو کہ ہاتھ سے نکل جائے۔ سسٹم کو مضبوط کرنے کیلئے سیاسی قیادتوں پر قومی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قوم کو مشکل صورتحال سے نکالیں۔ حقیقت یہ ہے کہ متحدہ اپوزیشن سے تشویش کی کوئی بات نہیں۔ اگر جمہوریت کی سر بلندی اور حزب اقتدار کی اصلاح کے لیے اپوزیشن اتحاد کرتی ہے تو اس سے پارلیمنٹ کی بالادستی قائم ہو گی۔ وزیر اعظم عمران خان اپنی ناپختہ ٹیم کے سحر سے باہر نکلیں، قوم ان کو پانچ سال تک اقتدار میں دیکھنا چاہتی ہے اور گورننس بہتر ہوتی ہے تو ان کے لیے اقتدار کی صورت میں توسیع بھی ہوتی چلی جائے گی۔ پارلیمنٹ کی بالا دستی کے لیے وزیر اعظم کو پارلیمنٹ میں آنے کی روایت قائم کرنی چاہئے۔ اس وقت جمہوری اور پارلیمانی روایات کے مطابق شہباز شریف شیڈو وزیر اعظم کے روپ میں پارلیمنٹ میں کھڑے ہیں‘ لہٰذا ملکی سیاست میں برپا تلاطم کا ادراک کرتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ٹکراؤ کے خدشات اور کشیدگی کم کرنے کا دریچہ کھلا رہنا چاہیے۔ کرپشن اور منی لانڈرنگ کے جو مقدمات اداروں میں زیر سماعت ہیں‘

ان پر وزرا کو سرعام تذکرہ کرنے اور تضحیک کی راہ اپنانے سے گریز کرنا چاہئے۔ اداروں کو اپنے فیصلے آزادانہ ماحول میں کرنے دیجئے۔ اس حوالے سے چیئرمین قومی احتساب بیورو نے جرأت مندانہ اور چشم کشا وارننگ دی ہے کہ کسی وزیر کی خواہش پر زرداری، مراد علی شاہ اور فریال تالپور کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ تحریک انصاف کو درحقیقت عمران خان کے کرپشن فری سوسائٹی کے نعرے کے باعث عوامی پذیرائی حاصل ہوئی۔ انہیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں ماسوائے سندھ میں اتنی نشستیں حاصل ہو گئیں کہ حکومت سازی کے مراحل میں عددی اکثریت حاصل کرنا آسان تھا۔ غربت‘ مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل کے حل اور کرپشن سے نجات کے لیے عوام کی توقعات بھی تحریک انصاف کی حکومت سے وابستہ ہو گئیں۔ پھر وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد عمران خان صاحب نے ریاست مدینہ کا تصور پیش کرکے خود بھی عوام کی توقعات بڑھائیں۔ یہ توقعات اس حد تک بڑھ گئیں کہ عوام اپنے گوناگوں مسائل کے فوری حل کے متمنی نظر آنے لگے‘ مگر تحریک انصاف کی حکومت کی ابتدائی پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی کے طوفان اٹھے جبکہ ادویات کے نرخوں میں ہوشربا اضافے سے عوامی مسائل میں کمی کے بجائے ان میں اضافہ ہوتا نظر آیا

تو اس پر عوامی حلقوں میں اضطراب کی کیفیت پیدا ہونا فطری امر تھا۔اپوزیشن جماعتوں کے لیے یہ نادر موقع تھا کہ وہ عوام میں پیدا ہونے والے اس اضطراب کو حکومت مخالف تحریک کے لیے بروئے کار لائے‘ مگر اس نے گریز کی پالیسی اختیار کی۔ شیخ رشید احمد اور ان کے جنگجو ساتھیوں کو ادراک ہونا چاہیے کہ اس میں حکمت عملی شہباز شریف کی ہے‘ اور وہ اپنی مخصوص در پردہ پالیسی میں اپنے خاندان کو ریلیف دلانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف‘ مریم نواز اور ان کے حامی خاموش ہیں۔ اور یہ شہباز شریف کی کامیاب حکمت عملی کی وجہ سے ہی ہے کہ وہ متحدہ اپوزیشن کے لیڈر ہیں‘ اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔ آئینی اور قانونی طور پر یہ اہم ترین فورم ہے جہاں حکمران جماعت کے وزرا اور بڑے تحقیقاتی ادارے ان کے سامنے پیش ہو رہے ہیں‘ اور ان کے سامنے جواب دہ بھی ہیں۔ پاکستان میں پارلیمانی نظام ناکام ہو چکا ہے، برطانوی طرز کے پارلیمانی نظام حکومت کو اپنانا ہم پر واجب نہیں، قائد اعظم محمد علی جناحؒ قیام پاکستان سے پہلے ہی اس نتیجہ پر پہنچ گئے تھے کہ برطانوی طرز پر پارلیمانی نظام پاکستان کے لیے موزوں نہیں کیونکہ پاکستان برطانوی طرز کا لسانی و نسلی وحدت رکھنے والا ملک ہرگز نہیں۔

اس کے علاوہ پاکستان کی سول سوسائٹی پر زمین داروں‘ جاگیرداروں‘ مخدوم زادوں کا غلبہ اس قدر تھا کہ برطانیہ کی طرز کی جمہوریت کا مطلب یہاں منتخب افراد کی مستقل حکومت کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔ قائد اعظمؒ کی دوربین نظروں نے یہ دیکھ لیا تھا کہ برطانوی طرز کی جمہوریت کا مطلب پنجاب کے جاگیرداروں کو پنجاب پر سندھ کے وڈیروں کو سندھ پر بلوچستان کے سرداروں کو بلوچستان پر اور صوبہ سرحد کے خوانین کو پختونخوا پر مکمل تسلط قائم کرنے کی سند دے دی جائے۔ کہا جاتا ہے کہ مشرقی پاکستان کے غریب نمائندگان کو علیحدہ کرنے کی سازش بڑے صوبے سے شروع ہوئی‘ لہٰذا قائداعظمؒ کے اندیشے غلط ثابت نہیں ہوئے۔ پاکستان پر ایک ایسا نظام مسلط ہو چکا ہے جو ایک طرف مملکت پاکستان کی فکری اساس اور دوسری طرف اہل پاکستان کی قومی شناخت کی نفی کرتا ہے۔ دنیا کی تمام حقیقی جمہوریتوں میں وزیراعظم کا انتخاب براہ راست عوام کرتے ہیں‘ اگر نظام پارلیمانی ہو تو بھی وہ جب اپنا ووٹ ڈالنے کیلئے نکلتے ہیں‘ تو ان کے ذہن میں اس شخص کا نام گونج رہا ہوتا ہے‘ جس کے ہاتھوں میں وہ اپنا مستقبل اور اپنا مقدر دینے کا فیصلہ کر چکے ہوتے ہیں۔ اب تک جتنے بھی انتخابات پاکستان میں ہو چکے ہیں‘ ان میں چیف ایگزیکٹو ہمیشہ اپنے کردار اور عمل سے متنازعہ ہی رہے ہیں۔

اب عمران خان انتہائی باریک لکیر کے سہارے حکومت کر رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں جمہوریت ایسے نظام کے تحت قائم ہونی چاہیے جس میں علاقائی اور نسلی شناختوںکا وجود نہ ہو۔ مجھے ملالہ یوسفزئی کی حیات پر مبنی فلم ”گل مکئی‘‘ کے پریمیئر میں بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کا موقع ملا۔ بین الاقوامی سطح کی درجنوں عالمی شہرت کی حامل شخصیات موجود تھیں۔ ان سے اپنے تبادلہ خیالات پر مبنی کالم علیحدہ کسی مرحلے پر تحریر کروں گا۔ فی الحال یہ بتانا چاہتا ہوں کہ لندن میں موجودہ پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی طرز حکومت کا نظام لانے کی سرگوشیاں ہو رہی تھیں اور موجودہ پارلیمانی نظام کے متبادل نظام لانے کا تذکرہ لندن کی اعلیٰ محافل میں سننے میں آیا۔ ایک سیاسی جماعت کی تشکیل کا ذکر بھی سننے میں آیا۔ نواز فیملی کے ارکان ہمیشہ کیلئے برطانیہ میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کی جستجو میں ہیں۔ نواز شریف بیماری کی آڑ میں لندن چلے جائیں گے اور ہمیشہ کیلئے پاکستان کے عوام سے اوجھل ہو جائیں گے۔ سندھ حکومت آزمائشی دور میں داخل ہونے والی ہے اور چند روز میں اہم فیصلے ہونے والے ہیں۔ فروری میں ہی تحریک انصاف کا غیر ملکی فنڈنگ کا فیصلہ متوقع ہے اور بین السطور اور بادی النظر میں اس فیصلے سے الیکشن کمیشن کی ساکھ مضبوط ہو جائے گی۔ سپریم کورٹ اس تناظر میں جو اہم فیصلے کرے گی چند روز پیشتر جہانگیر ترین اور اسحاق خاکوانی کو حفظ ماتقدم کے طور پر اپنی رائے سے آگاہ کر چکا ہوں۔ (ش س م)

Comments...
Advertisement


Follow on Twitter

Popular Posts
Your feedback is important for us, contact us for any queries.