Top Rated Posts ....
Search

Aainda Maah.....Intakhabaat...

Posted By: Abid on 24-09-2018 | 07:40:24Category: Political Videos, News


برازیل میں آئندہ ماہ انتخابات: مضبوط ترین صدارتی امیدوار زائل بولسنارو کو عمران خان سے کیوں تشبیہہ دی جا رہی ہے ؟ بی بی سی کی خصوصی رپورٹ
لاہور (ویب ڈیسک) دنیا کی سب سے بڑی جمہوریتوں میں شمار ہونے والے ملک برازیل میں آئندہ ماہ انتخابات ہونے والے ہیں اور وہاں انتخابی مہم زوروں سے جاری ہے۔ یہ ملک گذشتہ چند سالوں کے دوران بہت سے مسائل میں گھرا رہا ہے اور عوام کو ان انتخابات سے توقعات وابستہ ہیں کہ
مشہور صحافی آدرش راٹھور بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ ان کے بطن سے نیا سویرا پھوٹے گا اور ان کا ملک ایک بار پھر ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا۔ بعض ماہرین سوشل لیبرل پارٹی (پی ایس ایل) کے صدارتی امیدوار زائل بولسنارو کو ان کی جارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے ڈونلڈ ٹرمپ سے، اور اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کی وجہ سے عمران خان سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ رقبے کے لحاظ سے برازیل دنیا کا پانچواں اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک ہے۔ یہ ملک حیاتیاتی اور جغرافیائی تنوع سے مالامال ہے اور ان دنوں پوری دنیا کی نظریں اس پر ٹکی ہوئی ہیں۔ ایک زمانے میں تیز رفتاری سے ترقی کرنے والا برازیل شدید معاشی بدحالی کا شکار ہے اور آئندہ ہونے والے انتخابات سے یہاں کے باشندوں نے بہت سی امیدیں لگا رکھی ہیں۔ برازیل میں صدر اور نائب صدر، نیشنل کانگریس، ریاستوں اور فیڈرل ڈسٹرکٹ کے گورنر اور نائب گورنر، ریاستوں کی اسمبلیوں اور فیڈرل ڈسٹرکٹ کے مقننہ کے چیمبر کے لیے انتخابات ہو رہے ہیں۔ ان میں سے سب سے اہم صدارتی عہدے کا انتخاب ہے۔ اس سے قبل برازیل میں صدر کے لیے سنہ 2014 میں انتخابات ہوئے تھے جس میں جیلما روسیف صدر منتخب ہوئی تھیں۔
روسیف سے پہلے انھی کی پارٹی کے لولا ڈی سلوا 2003 سے 2011 تک برازیل کے صدر تھے۔ لولا اس وقت اپنے عہدے سے دست بردار ہوئے تھے جب ان کی مقبولیت عروج پر تھی۔ جیلما روسیف کے خلاف مواخذے کی مہم چلائی گئی اور انھیں 2016 میں معزول کر دیا گيا جس کے بعد نائب صدر مشیل تیمیر صدر بنے۔ برازیل میں سینیئر صحافی شوبھن سکسینا بتاتے ہیں کہ ان واقعات کے بعد ملک میں بحران پیدا ہو گیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ‘جیلما روسیف کے بعد وہاں سیاسی اور اقتصادی بحران پیدا ہو گيا۔ تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت کی رفتار سست ہو گئی اور یہ منفی میں چلی گئی۔ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ اس سال بدعنوانی کے خلاف زبردست مظاہرے ہوئے۔ روسیف کی اچھی شبیہ تھی۔ ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں تھا لیکن انھیں عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔’ شوبھن بتاتے ہیں کہ ان انتخابات میں معیشت سب سے بڑا مسئلہ ہے کیونکہ کروڑوں افراد اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوئے ہیں اور ملک میں سرمایہ کار بھی نہیں آ رہے ہیں اور سبھی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ معیشت کو ترقی کی راہ پر لانے کی ضرورت ہے۔

برازیل نے گذشتہ سو سالوں میں ایسی صورت حال کبھی نہیں دیکھی۔ دہلی میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سینٹر فار كینیڈين، امریکی اور لاطینی امریکی سٹڈیز کے پروفیسر ڈاکٹر عبد النافع بتاتے ہیں کہ خراب معیشت کے علاوہ برازیل میں اور بھی مسائل ہیں جو انتہائی سنگین ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ‘برازیل میں کرپشن آسمان پر ہے۔ باضابطہ طور اربوں ڈالر ادھر ادھر ہوئے ہیں۔ ایک اور بڑا مسئلہ تشدد ہے۔ اس قدر تشدد تو بس جنگ زدہ ممالک میں ہوتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ برازیل میں منافرت کا ماحول ہے۔ وہ کہتے ہیں: ‘ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برازیل میں عدم برداشت اور نفرت کا سیلاب امڈ آیا ہے۔ سیاہ فام اور خواتین نشانے پر ہیں۔ اس کے علاوہ کسی کو بائیں بازو سے متعلق کہنا یہاں آج کے وقت سب سے بڑی گالی بن گئی ہے۔’ انتخابات بھی تشدد سے اچھوتے نہیں۔ ایک مہم کے دوران کچھ دن قبل ایک شخص نے سوشل لیبرل پارٹی (پی ایس ایل) کے صدارتی امیدوار زائل بولسنارو کو چاقو مار دیا۔ وہ ہسپتال میں زیر علاج ہیں لیکن خود ان پر تشدد بھڑکانے اور نفرت پھیلانے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ صدر منتخب ہوئے تو سب کو بندوق رکھنے کا حق دیں گے تاکہ لوگ اپنا دفاع کر سکیں۔ لوگ انھیں برازیل کا ٹرمپ کہتے ہیں

مگر ان کی سیاست ٹرمپ سے زیادہ جارحانہ ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ افریقی نسل کے حملہ آور نے اسی قسم کی ان کی تقاریر سے متنفر ہو کر ان پر حملہ کیا ہے۔ برازیل ایک کثیر ثقافتی ملک ہے۔ دیسی باشندوں کے علاوہ افریقی غلاموں کی نسلیں اور یورپ سے آ کر بسنے والے یہاں آباد ہیں۔ صدارتی انتخابات کے رائے عامہ کے سروے میں فی الحال سب سے آگے نظر آنے والے پی ایس ایل کے امیدوار شائر بولسنیرو یہاں کے مقامی باشندوں، سیاہ فاموں اور خواتین کے خلاف جارحانہ تقاریر کر رہے ہی اور ڈاکٹر عبدالنافع کا خیال ہے کہ اسی وجہ سے انھیں مقبولیت بھی مل رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘بولسنارو کا خیال ہے کہ برازیل کے مسائل تشدد سے دور ہوں گے۔ وہ ٹرمپ کی طرح مشکل مسائل کا آسان حل تجویز کرتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کی مقبولیت بڑھی ہے اور حملے کے بعد تو مزید بڑھ گئی ہے۔’ برازیل میں موجود سینیئر صحافی شوبھن سکسینہ بتاتے ہیں دائیں بازو کی پارٹی پی ایس ایل کے امیدوار سروے میں ضرور آگے ہیں لیکن ورکرز پارٹی کے امیدوار فرنینڈو ہداد کی مقبولیت بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور لوگ بولسنارو کی مخالفت میں متحد ہو رہے ہیں۔ شوبھن بتاتے ہیں کہ

‘برازیل میں خواتین نے فیس بک پر بولسنارو کے خلاف ایک فیس بک گروپ بنایا ہے جس سے لاکھوں عورتوں جڑی ہیں کیونکہ بولسنارو نے تو پارلیمنٹ میں بھی خواتین کے خلاف بیان دیا تھا۔ ان خواتین کا کہنا ہے کہ وہ بولسنارو کے خلاف تحریک چلائیں گی۔ اس صورت میں بولسنارو اور ہداد کے درمیان کڑے مقابلے کی امید کی جا رہی ہے۔’ لولا دی سلوا 2003 سے 2011 تک ملک کے صدر رہے لیکن گذشتہ دو تین سالوں میں انھیں بدعنوانی کا مجرم قرار دیا گیا اور انھیں نو سال تک سزا دی گئی۔ وہ اس وقت قید میں ہیں۔ شوبھن سکسینہ بتاتے ہیں: ‘رائے عامہ کے جائزے دیکھیں تو وہ نمبر ایک تھے اور آج انتخابات ہوتا تو وہ جیت جاتے کیونکہ لوگوں کا خیال ہے کہ بغیر ثبوتوں کے ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا۔’ “لولا صدر کے عہدے کے بڑے دعویدار تھے اور انھوں نے سپریم کورٹ سے الیکشن لڑنے کی اجازت بھی مانگی تھی اور اقوام متحدہ کی کمیٹی نے بھی انھیں الیکشن لڑنے کی اجازت دینے کی حمایت کی تھی لیکن الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ نے جب انھیں اجازت نہیں دی تو انھوں نے فرنینڈو ہداد کو اپنی پارٹی کا امیدوار قرار دیا۔

ہداد ساو پولو کے میئر تھے اور انھوں نے اس شہر کی شکل ہی بدل دی تھی۔ وہ بھی وزیر تعلیم بھی رہ چکے ہیں۔ پیشے سے وکیل، پروفیسر اور ماہر اقتصادیات ہیں۔ برازیل میں یہ کہا جا رہا ہے کہ صدر کے انتخاب کا فیصلہ پہلے دور میں نہیں ہو پائے گا کیونکہ کوئی بھی امیدوار پہلی بار 50 فیصد ووٹ حاصل نہیں کر پائے گا۔ ایسے میں پہلے دور میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے دو امیدواروں کے درمیان 27 اکتوبر کو دوبارہ مقابلہ ہو گا اور تبھی فیصلہ ہو پائے گا۔ برازیل میں 1964 سے 1985 تک فوج کی حکمرانی تھی۔ ایسے میں یہاں جمہوریت کی جڑیں اتنی مضبوط نہیں کہی جا سکتیں لیکن ماہرین بتاتے ہیں کہ گزشتہ 15-20 سالوں سے مختلف لیفٹ پارٹیوں کے اقتدار میں آنے کی وجہ سے یہاں کی سول سوسائٹی مضبوط ہوئی ہے اور وہ کوشش کر رہی ہے کہ جمہوریت کو بچایا جائے۔ شوبھن سکسینہ کہتے ہیں: ‘اہم بات یہ ہے کہ کچھ پارٹیاں برازیل کو جمہوریت کی طرف لے جانا چاہ رہی ہیں تو کچھ اسے ماضی کی جانب۔ بولسنارو فوج میں کپتان رہ چکے ہیں اور ان کی طرف سے نائب صدر کے لیے نامزد امیدوار جرنل رہ چکے ہیں۔ انھیں ملک کی فوج اور سکیورٹی ایجنسیوں کا تعاون حاصل ہے۔ ’کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ آرمی کے امیدوار ہیں۔

جیسا کہ پاکستان میں ہوا ہے، عمران خان کے بارے میں ایسا ہی کہا گيا کہ انھیں فوج سے تعاون حاصل تھا۔ اسی طرح بولسنارو کو دیکھا جاتا ہے۔ مگر باقی پارٹیاں کوشش کر رہی ہے جمہوریت کو مضبوط کیا جائے اور ملک کی معیشت کو بہتر بنایا جائے۔ برازیل کی بدلی ہوئی سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر عبدالنافع بتاتے ہیں کہ آنے والے وقت میں برازیل میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ‘سب سے بڑی تبدیلی غیر ملکی پالیسی میں آئے گی۔ لولا اور جیلما کی پالیسی میں جنوبی-جنوبی تعاون پر زور دیا گیا تھا، لہذا وہ انڈیا اور چین کے ساتھ برکس میں سرگرم تھا، لیکن یہ ختم ہوسکتا ہے۔ دوسری بڑی تبدیلی یہ ہوگی کہ برازیل کے طاقتور لوگ اور بڑی کمپنیاں ٹرمپ کے قریب آ جائیں گی کیونکہ امریکہ نے چین سے آنے والے سامان پر درآمدی ڈیوٹی میں اضافہ کیا ہے لیکن برازیل سے درآمد پر کوئی اضافہ نہیں ہے۔ تو کہیں نہ کہیں آپس میں معاہدہ ہے۔ ایک اور بات یہ ہو سکتی ہے کہ برازیل کا چین پر انحصار بھی بڑھ سکتا ہے کیونکہ یہاں توانائی اور لوہے کے شعبے میں چین کی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ سات اکتوبر کو 16 سال اور اس سے زیادہ عمر کے 14 کروڑ افراد الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں سے پانچ مختلف سطح کے نمائندوں کو منتخب کرنے کے لیے ووٹ دیں گے۔(ش س م)

Comments...
Advertisement


Follow on Twitter

Popular Posts
Your feedback is important for us, contact us for any queries.